Friday, July 25, 2025

سلطان آباد میں راجاکی (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

 

سلطان آباد میں راجاکی  (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت

گلگت بلتستان ،جہاں پہاڑ خاموش محافظوں کی مانند سر اٹھائے کھڑے ہیں اور دریا اپنے قدیم راستوں کو تراشتے ہوئے  گنگناتے  ہوئے بہتے ہیں، وہاں سلطان آباد نامی ایک خوبصورت قصبہ گلگت کے آغوش میں سمایا ہوا ہے۔ اس سال موسم گرما 2025ء نے اس قصبے کی زندگی میں ایک تلخ  اور سخت موڑ لایا۔ ایک بے رحم سیلاب نے نہ صرف آبادیوں  کو تہس نہس کیا بلکہ واٹر چینلز اور پانی کی ترسیل کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیا۔ یہ پانی، جو کھیتوں اور انسانی بستیوں کی زندگی کا سانس ہے، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں تھا۔ سلطان آباد کے باسیوں کے لیے یہ محض ایک تکلیف نہیں تھی، بلکہ ان کے وجود کے لیے ایک سنگین خطرہ تھا۔

مگر اس مصیبت کے سائے میں، سلطان آباد کی کمیونٹی کا جذبہ چاندنی رات کی طرح چمکا۔ یہ قصبہ مختلف اقوام، خاندانوں اور روایات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، جہاں دہائیوں سے لوگ محبت، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ 25 جولائی 2025ء کو یہ اتحاد ایک قدیم روایت، راجاکی—یعنی رضاکارانہ خدمت—میں ڈھل گیا۔ یہ ایک مشترکہ عزم تھا، ایک وعدہ  تھا کہ جو ٹوٹا ہے، اسے مل کر سنواریں گے۔

جب صبح کی پہلی کرنیں پہاڑوں پر پھیلیں، سلطان آباد کے لوگ اوزاروں سے لیس، دلوں میں عزم کی چنگاری لیے نالے کی طرف نکل پڑے۔جوان و بوڑھے، ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ گروہوں میں واٹر چینل کے مختلف حصوں پر پھیل گئے۔ ہر گروہ نے اپنے حصے کی نہر کو بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ محنت محض کام نہیں تھا—یہ ایک جذبہ تھا، ایک جنون تھا، جو سلطان آباد کے اتحاد کا زندہ ثبوت بن گیا۔ نہ مذہب کی تقسیم تھی، نہ قبیلے کی، نہ خاندان کی تفریق—بس ایک قوم تھی، جو مل کر اپنی زمین کی زندگی کو واپس  لانے کی کوشش میں لگی تھی۔

میں بھی اس اجتماعی کوشش کا حصہ تھا، ایک ایسی جگہ جہاں سیلاب نے زمین کو کاٹ کر گہری کھائی بنا دی تھی۔ ہمارا کام مشکل تھا—ایک بلند پتھر کی دیوار اٹھانی تھی اور خلا کو مٹی سے بھرنا تھا تاکہ پانی دوبارہ اپنا راستہ پا سکے۔ میں نے دوسروں کے ساتھ مل کر پتھر اٹھائے، مٹی بھری، اور اپنا حصہ ڈالا۔ ہر شخص اپنی طاقت اور ہنر کے مطابق کردار ادا کر رہا تھا—کوئی جوانی کی توانائی سے، کوئی تجربے کی حکمت سے۔ ہوا میں ہنسی کی آوازیں، حوصلہ افزا کلمات، اور کبھی کبھار چھوٹے موٹے لطیفوں پر قہقہے گونج رہے تھے، جو ہر دل کو ایک دوسرے کے قریب لا رہے تھے۔ کام تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، جیسے کوئی جادوئی لمحہ ہو۔

مستریوں میں ایک شخص سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کی طاقت گویا پہاڑوں سے ٹکر لے رہی تھی۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز سے پتھر پر پتھر رکھ رہے تھے، بغیر کسی توقف کے۔ اس کی لگن ایک خاموش درس تھی، جو سب کو اپنے کام میں جٹے رہنے کی ترغیب دے رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا اور دل سے ماشاءاللہ کہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بول نہیں سکتا تھا، مگر اس کا ہنر، اس کا جذبہ، اور اس کی خوش مزاجی،  الفاظ سے بلند تر آواز میں بول رہی تھی۔ اس کی مہارت اس کی بے لوث محنت سے ہم آہنگ تھی۔

ایسے سینکڑوں ہیروز تھے، جن کے نام شاید کبھی نہ معلوم ہوں، مگر جن کی محنت ناقابل فراموش ہے۔ ہر پتھر، ہر مٹھی مٹی جو بھری گئی، کامیابی کی طرف ایک قدم تھا۔ سہ پہر تک نہر دوبارہ اپنی شکل میں ڈھل چکی تھی، اس کے خم کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ کام نہ مشینوں سے ہوا، نہ دولت سے، بلکہ اتحاد کی طاقت اور ان ہیروز کے عزم سے ممکن ہوا۔ کام ختم کرنے کے بعد  جب  میں نے پیچھےمڑکر دیکھاتو ہم نے کیا کمال کیاتھا۔ یہ نہر محض پانی کا راستہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک یادگار راجاکی تھی، اس کمیونٹی کی عظمت کی داستان جو کبھی نہیں ٹوٹی۔ ماشاءاللہ اور زندہ باد، سلطان آباد! تم نے نہ صرف اپنی نہر بحال کی، بلکہ محبت، ہمت، اور انسانی جذبے کی ایک نئی کہانی رقم کی۔

 

 

سلطان آباد میں راجاکی (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

  سلطان آباد میں راجاکی   (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت گلگت بلتستان ،جہاں پہاڑ خاموش ...