Tuesday, July 29, 2025

شکران نعمت و کفران نعمت

 

شکران نعمت و کفران نعمت

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت

میں گزشتہ سترہ برسوں سے دنیور محمد آباد اور سلطان آباد کی سرزمین پر رہائش پذیر ہوں۔ 2009 سے 2016 تک دنیور محمد آباد میرا ٹھکانہ رہا، اور پھر 2016 سے اب تک سلطان آباد میں مقیم ہوں۔ ان برسوں میں پینے کے پانی کے حوالے سے جو تجربہ میرا  رہا ہے، وہ یوں ہے کہ ہمارے گھروں تک سرکاری پائپ لائنوں کے ذریعے دنیور نالے کا پانی پہنچتا تھا۔ یہ پانی موسموں کے رنگ ڈھنگ کے ساتھ اپنا رنگ و روپ بھی  بدلتا رہتا ہے۔ گرمیوں میں خاص طور پر یہ اتنا گدلا ہوتا  ہے ،کہ اسے پینا محض اکتفا کا نام تھا۔ لیکن ہم سب اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔ 

میں کبھی سلطان آباد اور  دنیور نالے کے اندر  موجود حیشی نامی  اس خوبصورت چگہے پر تو  نہیں جا سکا ہوں، البتہ، سنا ہے کہ یہ ایک دلفریب چراگاہ ہے، جہاں ہر طرف ہریالی کا راج ہے اور  انتہائی پاک و صاف  اور بلکل شفاف چشمے  بہتے ہیں۔ یہ چراگاہ گویا رب  کریم کی رحمتوں کا ایک عظیم مظہر ہے۔علاقے کے بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں جب کوئی مرض لاعلاج ٹھہرتا، تو خلیفہ اور اخون حضرات اسی حیشی کے چشموں کا پاکیزہ پانی لانے کا حکم دیتے۔ اس پانی پر دم دعا کے بعد مریض کو پلایا جاتا، تو گویا مرض دم توڑ دیتا اور شفا مل جاتی۔ 

شکر ہے ربِ کریم کا کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتِ گلگت بلتستان اور آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی ادارے ’واسپ‘ کی کاوشوں سے  اسی حیشی کے ان شفاف چشموں کا پانی پائپ لائنوں کے ذریعے سلطان آباد، دنیور، اور محمد آباد کے ہر گھر تک پہنچایا گیا۔ یہ پانی نہ صرف پاکیزہ ہے بلکہ زندگی کو سہارا دینے والا بھی  ہے۔ مگر اس سال گرمیوں کے موسم نے ان دیہاتوں کے باسیوں کو زندگی کے ایک تلخ موڑ لا کھڑا کیا ہے۔ ایک بے رحم سیلاب نے نہ صرف  کناروں پر موجود آبادیوں  کو تہس نہس کیا، بلکہ واٹر چینلز اور  چشمے کےپانی کی ترسیل کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیا۔ یہ پانی، جو کھیتوں اور گھروں کی جان تھا، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں جا چکا ہے۔  پوری کمیونیٹی واٹر چینلز اور پائپ لائنوں کی بحالی کے لیے دن رات  سرگرداں ہے۔ کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر روزانہ نالے میں نہروں کی صفائی میں جتے  ہوئےہیں، تو کچھ عمائدین و سرکردگان سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں،  اور امداد کی امید میں اپنی بے بسی کی داستانیں سنا رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کمیونیٹی کی مشترکہ جدوجہد اور اداروں کی مدد سے یہ آفت جلد ٹل جائے گا، اور پانی کی ترسیل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ 

مگر اس موقع پر ہمیں ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔ سلطان آباد، دنیور، اور محمد آباد کےتمام باسیوں کو اپنے اپنے  گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔عام عوام و خواص کو اپنے آپ سے کچھ سوالات  پو چھنے ہونگے۔ کیا ہم نے اس نعمت کی قدر کی؟ کیا ہم نے شکرانِ نعمت ادا کیا یا کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوئے؟ ان نالوں  کو روائتی طور پر ہمیشہ سے پاک و صاف اور مقدس تصور کیا جاتا ہے، کیا ہم نے اس کا خیال رکھا؟  یہ پاک و  صاف   اور پرتاثیر شفاف پانی، جو خاص طور پر پینے کے لیے ہم تک پہنچایا گیا تھا، کیا ہم نے اسے بے جا استعمال تو نہیں کیا؟ کیا ہم نے اسے غیر ضروری طورکھیتوں، کیاریوں اور نہروں میں ضائع  تو نہیں کیا؟پانی کا تقسیم برابری کے بنیاد پر کیا  یا کچھ گھروں  اور علاقوں میں یہ پانی چند گھنٹوں سے زیادہ میسر نہ تھا؟ کیا ہم نے پانی کے استعمال کے لیے مقررہ فیس  جو پورا مہینے کے لیے صرف سیکڑوں میں ہے ، ادا کی، یا اسے نظر انداز کر دیا؟  جبکہ آج ہم دو ہزار سے زیادہ رقم  ادا کر کے پانی کا ٹینکر تو منگوا رہے ہیں جو مشکل سے ایک ہفتہ سے کم وقت میں ختم ہو جاتا ہے،  اس طرح کے اور کئی کئی سوالات ہو سکتے ہیں، اور دیگرقارئین کے زہنوں میں  بھی سوالات ہو سکتے ہیں، کسی کو جواب دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہم سب کو اپنے اپنے تعین اس  صورت حال کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔  آئیے ہم سب غور کریں اور  آج سے مستحکم ارادہ کر لیں کہ  اس نعمت کی قدر کریں گے، تاکہ رب  کریم کی رحمت ہم پر دوبارہ سایہ فگن ہو۔ نہیں تو   بقول مرزا غالب  کے کہ:

آپ ہی اپنے اداؤں پہ زرا غور کرو،

ہم اگر کہہ دیں گے تو شکایت ہوگی

Friday, July 25, 2025

سلطان آباد میں راجاکی (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

 

سلطان آباد میں راجاکی  (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت

گلگت بلتستان ،جہاں پہاڑ خاموش محافظوں کی مانند سر اٹھائے کھڑے ہیں اور دریا اپنے قدیم راستوں کو تراشتے ہوئے  گنگناتے  ہوئے بہتے ہیں، وہاں سلطان آباد نامی ایک خوبصورت قصبہ گلگت کے آغوش میں سمایا ہوا ہے۔ اس سال موسم گرما 2025ء نے اس قصبے کی زندگی میں ایک تلخ  اور سخت موڑ لایا۔ ایک بے رحم سیلاب نے نہ صرف آبادیوں  کو تہس نہس کیا بلکہ واٹر چینلز اور پانی کی ترسیل کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیا۔ یہ پانی، جو کھیتوں اور انسانی بستیوں کی زندگی کا سانس ہے، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں تھا۔ سلطان آباد کے باسیوں کے لیے یہ محض ایک تکلیف نہیں تھی، بلکہ ان کے وجود کے لیے ایک سنگین خطرہ تھا۔

مگر اس مصیبت کے سائے میں، سلطان آباد کی کمیونٹی کا جذبہ چاندنی رات کی طرح چمکا۔ یہ قصبہ مختلف اقوام، خاندانوں اور روایات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، جہاں دہائیوں سے لوگ محبت، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ 25 جولائی 2025ء کو یہ اتحاد ایک قدیم روایت، راجاکی—یعنی رضاکارانہ خدمت—میں ڈھل گیا۔ یہ ایک مشترکہ عزم تھا، ایک وعدہ  تھا کہ جو ٹوٹا ہے، اسے مل کر سنواریں گے۔

جب صبح کی پہلی کرنیں پہاڑوں پر پھیلیں، سلطان آباد کے لوگ اوزاروں سے لیس، دلوں میں عزم کی چنگاری لیے نالے کی طرف نکل پڑے۔جوان و بوڑھے، ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ گروہوں میں واٹر چینل کے مختلف حصوں پر پھیل گئے۔ ہر گروہ نے اپنے حصے کی نہر کو بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ محنت محض کام نہیں تھا—یہ ایک جذبہ تھا، ایک جنون تھا، جو سلطان آباد کے اتحاد کا زندہ ثبوت بن گیا۔ نہ مذہب کی تقسیم تھی، نہ قبیلے کی، نہ خاندان کی تفریق—بس ایک قوم تھی، جو مل کر اپنی زمین کی زندگی کو واپس  لانے کی کوشش میں لگی تھی۔

میں بھی اس اجتماعی کوشش کا حصہ تھا، ایک ایسی جگہ جہاں سیلاب نے زمین کو کاٹ کر گہری کھائی بنا دی تھی۔ ہمارا کام مشکل تھا—ایک بلند پتھر کی دیوار اٹھانی تھی اور خلا کو مٹی سے بھرنا تھا تاکہ پانی دوبارہ اپنا راستہ پا سکے۔ میں نے دوسروں کے ساتھ مل کر پتھر اٹھائے، مٹی بھری، اور اپنا حصہ ڈالا۔ ہر شخص اپنی طاقت اور ہنر کے مطابق کردار ادا کر رہا تھا—کوئی جوانی کی توانائی سے، کوئی تجربے کی حکمت سے۔ ہوا میں ہنسی کی آوازیں، حوصلہ افزا کلمات، اور کبھی کبھار چھوٹے موٹے لطیفوں پر قہقہے گونج رہے تھے، جو ہر دل کو ایک دوسرے کے قریب لا رہے تھے۔ کام تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، جیسے کوئی جادوئی لمحہ ہو۔

مستریوں میں ایک شخص سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کی طاقت گویا پہاڑوں سے ٹکر لے رہی تھی۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز سے پتھر پر پتھر رکھ رہے تھے، بغیر کسی توقف کے۔ اس کی لگن ایک خاموش درس تھی، جو سب کو اپنے کام میں جٹے رہنے کی ترغیب دے رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا اور دل سے ماشاءاللہ کہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بول نہیں سکتا تھا، مگر اس کا ہنر، اس کا جذبہ، اور اس کی خوش مزاجی،  الفاظ سے بلند تر آواز میں بول رہی تھی۔ اس کی مہارت اس کی بے لوث محنت سے ہم آہنگ تھی۔

ایسے سینکڑوں ہیروز تھے، جن کے نام شاید کبھی نہ معلوم ہوں، مگر جن کی محنت ناقابل فراموش ہے۔ ہر پتھر، ہر مٹھی مٹی جو بھری گئی، کامیابی کی طرف ایک قدم تھا۔ سہ پہر تک نہر دوبارہ اپنی شکل میں ڈھل چکی تھی، اس کے خم کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ کام نہ مشینوں سے ہوا، نہ دولت سے، بلکہ اتحاد کی طاقت اور ان ہیروز کے عزم سے ممکن ہوا۔ کام ختم کرنے کے بعد  جب  میں نے پیچھےمڑکر دیکھاتو ہم نے کیا کمال کیاتھا۔ یہ نہر محض پانی کا راستہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک یادگار راجاکی تھی، اس کمیونٹی کی عظمت کی داستان جو کبھی نہیں ٹوٹی۔ ماشاءاللہ اور زندہ باد، سلطان آباد! تم نے نہ صرف اپنی نہر بحال کی، بلکہ محبت، ہمت، اور انسانی جذبے کی ایک نئی کہانی رقم کی۔

 

 

ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر

  ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد گلگت۔ سلطان آباد، گلگت ایک ایسا حسین گاوں، جو حالیہ ...