ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر
تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد گلگت۔
سلطان آباد، گلگت ایک ایسا حسین گاوں، جو حالیہ سیلابی تباہ
کاریوں کی وجہ سے ایک مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اپنی دلکشی
اور حوصلے کے ساتھ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ یہ سرزمین، جو اپنی زرخیزی اور رنگا
رنگی کے لیے مشہور ہے، اب کمیونیٹی کے رضاکاروں اور مقامی حکومت کے تعاون سے نہروں
کی بحالی کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے۔ امید کی یہ کرنیں، جو دل و جان کو گرما رہی
ہیں، گواہی دیتی ہیں کہ جلد ہی سلطان آباد کی پیاسی زمین کو پانی کی نعمت دوبارہ نصیب
ہوگی۔ انشاءاللہ۔ یہ زمین، جو اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کی خدمت اور حفاظت ہی ہم
انسانوں کا فرض ہے۔ یہ حالیہ آفت، جو ایک امتحان بن کر آئی، نہ صرف مشکلات سے دوچار
کیا بلکہ کئی بیش قیمت سبق بھی سکھا گیا۔
پہلا سبق یہ کہ قدرتی آفات جب اپنا زور دکھاتی ہیں، تو وہ نہ
قوم دیکھتی ہیں، نہ مسلک، نہ زبان اور نہ ہی کوئی اور امتیاز۔ یہ آفت سب کو یکساں اپنی لپیٹ میں لے لیتی
ہے، اور اس طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے
لیے اتحاد و اتفاق ہی سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ سلطان آباد، جسے میں اکثر اپنی تحریروں میں ایک رنگا رنگ گلشن سے تشبیہ
دیتا رہا ہوں، واقعی ایک ایسی جنت نظیر ہے جہاں مختلف رنگ، نسل، عقائد، روایات اور
زبانوں کے پھول اپنی بھرپور آب و تاب کے ساتھ کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی باغ صرف ایک ہی قسم کے پھولوں سے سجا ہو، تو وہ خوبصورت تو
ہوتا ہے، مگر جب اسی باغ میں رنگ برنگ کے پھول، مختلف خوشبوؤں اور اقسام کے ساتھ سج
جائیں، تو اس کی دلکشی میں چار چاند لگے
جاتے ہیں۔ سلطان آباد بھی ایسا ہی ایک منفرد گلشن ہے، جہاں شینا، پشتو، گوجری، کھوار،
واخی اور بروشاسکی کی تینوں اقسام (ہنزہ، نگر اور یاسینی) بولنے والوں کا مجموعہ
ہے، جو اسے ایک عظیم ثقافتی مرکز بنادیتا ہے۔ یہ رنگا رنگی اس سرسبز قطع اراضی کی پہچان ہے، جو اسے دوسرے علاقوں سے ممتاز بنا دیتی ہے۔
دوسرا سبق جو اس سیلابی آفت نے ہمیں دیا، وہ ہے اتحاد و اتفاق
کی لازوال طاقت۔ جب سیلابی ریلوں نے سلطان آباد کی دونوں نہروں کو اپنی لپیٹ میں لے
کر تباہ کیا، تو اس علاقے کے باسیوں نے یک جان ہو کر اس کا مقابلہ کیا۔ مرد ، بزرگ
و جوان اور بچوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس بحالی کے اہم اور سخت کام میں حصہ لیا۔ یہ منظر نہ صرف قابلِ تحسین
ہے بلکہ ایک ایسی مثال ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے گی۔ آفرین ہے اس قوم
پر، جو مشکل کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کا سہارا بنی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ
اسی طرح ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور سلطان آباد کی
تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہمت بخشے۔ آمین۔
نہروں کی بحالی کا کام اب امید افزا انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
دونوں نہریں جزوی طور پر بحال ہو چکی ہیں، اور انشاءاللہ جلد مکمل بحالی کی خوشخبری
بھی ملے گی۔ اس قدرتی امتحان میں سلطان آباد کے باسیوں نے جس یکجہتی اور ہمت کا مظاہرہ
کیا ہے، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے سرخروئی اور کامیابی کی صورت میں عطا کیاہے۔ اس نعمت
پر سجدہ شکر بجا لانا ہم سب پر لازم ہے۔ اس
عظیم کامیابی کے جشن کے طور پر، سلطان آباد کے تمام باسیوں کو چاہیے کہ وہ ایک عظیم
الشان شکرانے کی محفل سجائیں۔ اس محفل میں مرد و زن، بزرگ و جوان، بچے، سب شریک ہوں۔
نیاز کا اہتمام کیا جائے، مختلف پروگرامز ترتیب دیے جائیں، ہر قسم کے ثقافتی
پروگرامز جن میں پشتو ثقافب، گوجری ثقافت، شینا ثقافت، کھوار ثقافت، واخی ثقافت،
اور بروشاسکی ثقافتیں اجاگر کی جائیں، اور پورا دن خوشیاں بانٹتے ہوئے گزرے۔ یہ محفل نہ
صرف ہمارے اتحاد کی عکاسی کرے گی ،بلکہ اس عہد کی تجدید کا موقع بھی فراہم کرے گی کہ
ہم ایک تھے، ایک ہیں، اور انشاءاللہ ہمیشہ ایک رہیں گے۔ اس موقع پر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں
دی جائیں، ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوا
جائے، اور اس سرزمین کی ترقی و خوشحالی کے لیے سب مل کر دعائیں مانگی جائیں۔ اور اگر ہو سکے تو
اسی طرح کے شکرانے کی محفل و ثقافتی میلہ
ہر سال سجانے کا اہتمام کیا جائے۔
اے اللہ، تو اس سرزمین
کو اپنی رحمتوں سے نواز دے، اس کے باسیوں کو ہمیشہ متحد رکھ، اور انہیں ہر مشکل سے
نکالنے کی اعلی توفیق عطا فرما۔ سلطان آباد
کا یہ رنگا رنگ گلشن ہمیشہ اپنی دلکشی اور
سرخروئی کے ساتھ چمکتا رہے، اور اس کے باسی اپنے اتحاد و محبت کی بدولت ہر امتحان میں
سرخرو ہوں۔ آمین، یا رب العالمین۔
No comments:
Post a Comment