Tuesday, August 19, 2025

نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں

 

نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں

میں،  درویش کریم اپنے قریبی فیملی کے تمام افراد کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ محض میرا نقطہ نظر ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مکمل طور پر درست نہ بھی  ہو، لیکن میں نے سوچا کہ اسے آپ سب کے ساتھ شئیر کروں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہر گھر میں وقتاً فوقتاً مختلف واقعات پیش آتے  رہتے ہیں۔ کبھی خوشی کے لمحات ہیں تو کبھی ناچاقی کے۔ یہ کوئی غیر معمولی  یا انہونی بات نہیں ہے، بلکہ یہ سب زندگی کا حصہ ہیں۔ خوشی اور غم، دونوں ہی ہر دور میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔

خوشی کے لمحات سے تو ہر کوئی لطف اندوز ہوتا  ہی ہے، لیکن جب  (اللہ نہ کرے)  کبھی ناچاقی ہوجاتی  ہے تو ہم اکثر اسے اپنے  دل پر لے لیتے ہیں اور اسے زندگی بھر کا روگ بنا لیتے ہیں۔ ہم اس ناچاقی میں ملوث رشتہ داروں کو ہمیشہ بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان کی باتوں کو دل میں بسائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم ان واقعات کا تذکرہ اپنے بچوں سے بھی کرتے ہیں، جو بعض اوقات اس ناچاقی کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے دل میں پالی ہوئی کدورت کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کر دیتے ہیں اور ان کے ذہنوں کو بھی  ان رشتہ داروں کے حوالے سے منفی جذبات سے آلودہ کر لیتے ہیں۔

نتیجتاً، ہم رشتوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے نسل در نسل نفرت اور دوری کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ساس، سسر، میاں ، بیوی،بہو، بھابھی، دیور، دیورانی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، پھوپھی، پھوپھا ، بھانجے ، بھانجیاں، بتیجا، بتیجیاں اور اسطرح  کے دیگر رشتوں کو ہم اس قدر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے ہم ایک دوسرے کے رشتہ دار نہیں، بلکہ دشمن ہیں اور اجنبی ہیں۔ حالانکہ رشتے زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ یہ رشتے ہمیں جوڑتے ہیں، ہماری خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں اور ہماری زندگی کو بامعنی بنا  دیتے ہیں۔

آخر میں، میری آپ سب سے گزارش ہے کہ رشتوں کی قدر  کرنا شروع کریں اور انہیں سنبھال کر رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی ناچاقی ہو بھی جائے تو اسے اپنی حد تک محدود رکھیں، اور کوشش کریں کہ وہ ناچاقی دل سے نکال سکیں۔ میری گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی اولاد کے ذہنوں کو رشتوں کے بارے میں منفی خیالات سے آلودہ نہ کریں۔ اپنے بچوں کو رشتوں کی اہمیت سکھائیں، محبت اور معافی کا سبق دیں، تاکہ وہ ایک مثبت اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔ آئیے مل کر نفرت کے بجائے محبت اور رشتوں کی گرمجوشی کو فروغ دیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔

اگست ۱۹، ۲۰۲۵

Monday, August 18, 2025

حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور متبادل سڑکوں اور پلوں کی اہمیت

 

حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور متبادل سڑکوں اور پلوں کی اہمیت

تحریر: درویش کریم

پورا گلگت بلتستان 2025 کے مون سون سیزن اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے شدید سیلابی صورت حال سے متاثر ہے، جس نے جگہ جگہ پر تباہی مچائی ہے۔ جولائی کے وسط سے شروع ہونے والی یہ سیلابی صورت حال گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔ ان سیلابوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، زرعی زمینیں، مکانات، اور انفراسٹرکچر جن میں نہریں، سڑکیں اور پل شامل ہیں، تباہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہو چکی ہے، اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ 

اس طرح کے حالات میں دیکھا گیا ہے کہ رابطہ سڑکیں اور پل علاقے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر گلگت بلتستان جہاں جغرافیائی مشکلات اور دور دراز علاقے موجود ہیں۔ یہ نہ صرف لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بناتے ہیں بلکہ معیشت، تجارت، سیاحت، اور ضروری اشیاء کی سپلائی کے لیے ناگزیر ہیں۔ گلگت بلتستان میں، جہاں سیاحت بنیادی ذریعہ معاش ہے، سڑکیں اور پل سیاحوں کو پہنچانے اور مقامی مصنوعات کو مارکیٹ تک لانے اور لے جانے کا واحد ذریعہ ہیں۔ پل دریاوں اور نالوں کو عبور کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو سیلاب یا قدرتی آفات کے وقت لائف لائن کا کام کرتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی سے نہ صرف اقتصادی سرگرمیاں رک جاتی ہیں بلکہ ہنگامی طبی امداد، خوراک کی ترسیل، اور تعلیم تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔ جدید انفراسٹرکچر کی موجودگی سے علاقائی ترقی ممکن ہوتی ہے، جبکہ یہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر، پکی سڑکیں اور مضبوط پل قومی اتحاد اور ترقی کی علامت    سمجھی جاتی ہیں، جو دور دراز علاقوں کو مرکزی شہروں سے جوڑنے کے سبب بنتی ہیں۔ 

جب سڑکیں اور پل سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں تو لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑی تکلیف آمد و رفت کی بندش ہے، جس سے لوگ اپنے گھروں میں پھنس جاتے ہیں اور ضروری اشیاء جیسے ادویات، خوراک، اور ایندھن تک رسائی نہیں ملتی۔ کچھ علاقوں میں، جہاں صرف ایک سڑک موجود ہو اور اگر یہ سڑک بہہ جائے تو ہزاروں سیاح اور مقامی لوگ پھنس جاتے ہیں، جس سے معاشی نقصان ہوتا ہے۔ طبی ہنگامی صورتحال میں مریضوں کو ہسپتال پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے، جو ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا سبب بن جاتے ہیں، بچے سکول نہیں جا سکتے، کسان اپنی پیداوار مارکیٹ تک نہیں پہنچا سکتے، اور کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں، لوگوں کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑتا ہے، جو نقل مکانی کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ یہ تکلیفیں خاص طور پر غریب اور دیہی علاقوں کے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں، جو پہلے ہی وسائل کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر حسن آباد ہنزہ میں ششپر گلیشیئر کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب نےقراقرم ہائی وے کا ایک بڑا حصہ بہا لے گیا، جس سے گلگت اور ہنزہ کے درمیان مرکزی شاہراہ منقطع ہو گئی۔ تاہم، سمائر، اسقرداس، اور شاہ یار نگر کی سڑک، جو اس وقت متبادل راستے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، کی بدولت لوگوں کی آمد و رفت میں کافی آسانی پیدا ہوئی ہے۔ یہ متبادل راستہ، جو نگر کی طرف سے گزرتا ہے، ٹریفک کو ڈائیورٹ کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔،  جس سے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو سفر جاری رکھنے کا  سہولت میسر ہوا ہے۔ اسی کی بدولت، ہزاروں افراد پھنسنے سے بچ گئے اور علاقے کی معیشت مکمل طور پر نہیں رکی۔ یہ مثال ظاہر کرتی ہے کہ متبادل راستے کس طرح بحران میں لائف لائن کا کام کرتے ہیں۔ 

اس طرح کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے دریاوں کے دونوں اطراف مزید متبادل سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ یہ آسان آمد و رفت کے علاوہ بحران کے وقت متبادل راستوں کے طور پر لوگوں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے پختہ سڑکیں اور پل بنائے، جو طویل مدتی سرمایہ کاری ثابت ہوں گے۔ مثلاً گلگت نومل سے ناصر آباد ہنزہ تک متبادل سڑک اور نگر مناپن سے ہوپر نگر تک متبادل سڑک اور بہت سے جگہوں  پرپلوں کی تعمیر انتہائی ناگزیر ہے۔ 

عوامی نمائندوں اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی حالات سے نمٹنے کے لیے متبادل راستوں کی تعمیر کو ترجیح دیں۔ عوامی نمائندوں کو مقتدر ایوانوں میں یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے، فنڈز کی تخصیص کی مانگ کرنی چاہیے، اور مقامی کمیونٹیز کی آواز بننا چاہیے۔ وہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلانز میں متبادل انفراسٹرکچر کو شامل کروا سکتے ہیں۔ تاہم، اکثر دیکھا گیا ہے کہ کرپشن اور عدم توجہی کی وجہ سے پروجیکٹس تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، جو عوامی نمائندوں کی ناکامی ہے۔ ایک موثر حکمت عملی یہ ہے کہ کمیونٹی بیسڈ پلاننگ کی جائے، جہاں مقامی لوگوں کی رائے شامل ہو۔ اگر ادارے فعال ہوں تو، مستقبل میں سیلاب جیسی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے، اور علاقائی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

Thursday, August 7, 2025

ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر

 

ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد گلگت۔

سلطان آباد، گلگت ایک ایسا حسین گاوں، جو حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کی وجہ سے ایک مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی ہے، لیکن اس کے  باوجود بھی  اپنی دلکشی  اور حوصلے کے ساتھ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ یہ سرزمین، جو اپنی زرخیزی اور رنگا رنگی کے لیے مشہور ہے، اب کمیونیٹی کے رضاکاروں اور مقامی حکومت کے تعاون سے نہروں کی بحالی کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے۔ امید کی یہ کرنیں، جو دل و جان کو گرما رہی ہیں، گواہی دیتی ہیں کہ جلد ہی سلطان آباد کی پیاسی زمین کو پانی کی نعمت دوبارہ نصیب ہوگی۔ انشاءاللہ۔ یہ زمین، جو اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کی خدمت اور حفاظت ہی ہم انسانوں کا فرض ہے۔ یہ حالیہ آفت، جو ایک امتحان بن کر آئی، نہ صرف مشکلات سے دوچار کیا بلکہ کئی بیش قیمت سبق بھی  سکھا گیا۔

پہلا سبق یہ کہ قدرتی آفات جب اپنا زور دکھاتی ہیں، تو وہ نہ قوم دیکھتی ہیں، نہ مسلک، نہ زبان اور نہ ہی کوئی اور  امتیاز۔ یہ آفت سب کو یکساں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اور اس  طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد و اتفاق ہی سب سے بڑا ہتھیار   ثابت ہوتا ہے۔ سلطان آباد، جسے میں  اکثر اپنی تحریروں میں ایک رنگا رنگ گلشن سے تشبیہ دیتا رہا ہوں، واقعی ایک ایسی جنت نظیر ہے جہاں مختلف رنگ، نسل، عقائد، روایات اور زبانوں کے پھول اپنی بھرپور آب و تاب کے  ساتھ کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی باغ صرف ایک ہی قسم کے پھولوں سے سجا ہو، تو وہ خوبصورت تو ہوتا ہے، مگر جب اسی باغ میں رنگ برنگ کے پھول، مختلف خوشبوؤں اور اقسام کے ساتھ سج جائیں، تو اس کی دلکشی  میں چار چاند لگے جاتے ہیں۔ سلطان آباد بھی ایسا ہی ایک منفرد گلشن ہے، جہاں شینا، پشتو، گوجری، کھوار، واخی اور بروشاسکی کی تینوں اقسام (ہنزہ، نگر اور یاسینی) بولنے والوں کا مجموعہ ہے، جو اسے ایک عظیم ثقافتی مرکز بنادیتا ہے۔ یہ رنگا رنگی اس سرسبز قطع اراضی  کی پہچان ہے، جو اسے دوسرے علاقوں سے ممتاز  بنا دیتی ہے۔

دوسرا سبق جو اس سیلابی آفت نے ہمیں دیا، وہ ہے اتحاد و اتفاق کی لازوال طاقت۔ جب سیلابی ریلوں نے سلطان آباد کی دونوں نہروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہ کیا، تو اس علاقے کے باسیوں نے یک جان ہو کر اس کا مقابلہ کیا۔ مرد ، بزرگ و جوان اور بچوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس بحالی کے اہم  اور سخت کام میں حصہ لیا۔ یہ منظر نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ ایک ایسی مثال ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے گی۔ آفرین ہے اس قوم پر، جو مشکل کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کا سہارا بنی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اسی طرح ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور سلطان آباد کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہمت بخشے۔ آمین۔

نہروں کی بحالی کا کام اب امید افزا انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ دونوں نہریں جزوی طور پر بحال ہو چکی ہیں، اور انشاءاللہ جلد مکمل بحالی کی خوشخبری بھی ملے گی۔ اس قدرتی امتحان میں سلطان آباد کے باسیوں نے جس یکجہتی اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے سرخروئی اور کامیابی کی صورت میں عطا کیاہے۔ اس نعمت پر سجدہ شکر بجا لانا ہم سب پر لازم ہے۔  اس عظیم کامیابی کے جشن کے طور پر، سلطان آباد کے تمام باسیوں کو چاہیے کہ وہ ایک عظیم الشان شکرانے کی محفل سجائیں۔ اس محفل میں مرد و زن، بزرگ و جوان، بچے، سب شریک ہوں۔ نیاز کا اہتمام کیا جائے، مختلف پروگرامز ترتیب دیے جائیں، ہر قسم کے ثقافتی پروگرامز جن میں پشتو ثقافب، گوجری ثقافت، شینا ثقافت، کھوار ثقافت، واخی ثقافت، اور بروشاسکی ثقافتیں  اجاگر کی جائیں،  اور پورا دن خوشیاں بانٹتے ہوئے گزرے۔ یہ محفل نہ صرف ہمارے اتحاد کی عکاسی کرے گی ،بلکہ اس عہد کی تجدید کا موقع بھی فراہم کرے گی کہ ہم ایک تھے، ایک ہیں، اور انشاءاللہ ہمیشہ ایک رہیں گے۔ اس موقع پر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی جائیں، ایک دوسرے کی  خوشیوں میں شریک ہوا جائے، اور اس سرزمین کی ترقی و خوشحالی کے لیے  سب مل کر دعائیں مانگی جائیں۔ اور اگر ہو سکے تو اسی طرح کے  شکرانے کی محفل و ثقافتی میلہ ہر سال سجانے کا اہتمام  کیا جائے۔

اے اللہ،  تو اس سرزمین کو اپنی رحمتوں سے نواز دے، اس کے باسیوں کو ہمیشہ متحد رکھ، اور انہیں ہر مشکل سے نکالنے کی  اعلی توفیق عطا فرما۔ سلطان آباد کا یہ رنگا رنگ گلشن ہمیشہ اپنی دلکشی  اور سرخروئی کے ساتھ چمکتا رہے، اور اس کے باسی اپنے اتحاد و محبت کی بدولت ہر امتحان میں سرخرو ہوں۔ آمین، یا رب العالمین۔

 

Saturday, August 2, 2025

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

 

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت۔

سلطان آباد، گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت قصبہ، جو کبھی اپنی مثالی ہم آہنگی اور سرسبز زراعت کے لیے جانا جاتا تھا، آج ایک تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے۔ یہ قصبہ، جہاں مختلف اقوام، خاندانوں اور روایات کا خوبصورت امتزاج آباد ہے، دہائیوں سے محبت، امن اور یکجہتی کی علامت رہا ہے۔ تقریباً 1500 گھرانوں پر مشتمل یہ آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت، پھل دار درختوں اور جنگلات پر انحصار کرتی ہے۔ 11 ہزار کنال اراضی کو سیراب کرنے کے لیے سلطان آباد نالے سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، جن سے 7000 کنال پر زرعی اجناس اور پھل دار درخت جبکہ 4000 کنال پر عمارتی لکڑی اور جنگلی درخت اگائے گئے ہیں۔ ایک  محتاط اندازے کے مطابق یہاں 60 ہزار سے زائد پھل دار درخت اور 3 لاکھ سے زیادہ جنگلی اور عمارتی درخت موجود ہیں، جو اس خطے کی زرخیزی اور معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔

تقریباً دو ہفتے قبل، سلطان آباد نالے میں ایک غیر معمولی شدت کا سیلاب آیا، جس کا کوئی ریکارڈ ماضی میں موجود نہیں۔ اس بے رحم سیلاب نے نہ صرف نالے کے کناروں پر واقع آبادیوں کو تہس نہس کیا بلکہ پانی کی دونوں نہریں اور پینے کے پانی کا ترسیلی نظام بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یہ پانی، جو 11 ہزار کنال اراضی کی آبپاشی اور انسانی بستیوں کی بقا کا واحد سہارا تھا، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں ہے۔ یہ محض ایک قدرتی آفت ہی  نہیں، بلکہ سلطان آباد کے باسیوں کے وجود کے لیےبھی  ایک سنگین خطرہ ہے۔

سلطان آباد کے باسی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ دن رات نہروں کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن نقصان کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مقامی وسائل اس کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔ 11 ہزار کنال اراضی، جسے آباد کرنے میں ایک صدی کی محنت لگی، دوبارہ بنجر ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ کمیونٹی متحد ہو کر ملبہ صاف کرنے اور نہروں کی بحالی کے لیے جدو جہد کر رہی ہے، لیکن بھاری مشینری، دھماکہ خیز مواد، اسٹیل، سیمنٹ اور ہنرمند مزدوروں کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔

قدرتی آفات جیسے سیلاب جب پانی کے ترسیلی نظام کو متاثر کرتے ہیں، تو مقامی حکومتوں، سیاسی نمائندوں، حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں،  مثلاً  مقامی حکومتیں، فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی کے لیے واٹر ٹینکرز اور بوتل بند پانی کی تقسیم کا انتظام ،  متاثرہ واٹر سپلائی سسٹم کی مرمت یا عارضی متبادل نظام قائم  کرنا،  اور اس طرح  سیاسی نمائندے، متاثرین کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانا اور فوری امداد کے لیے دباؤ ڈالنا،  حکومتی فنڈز اور امدادی پیکجز کو شفاف طریقے سے متاثرین تک پہنچانے میں کردار ادا کرنا شامل ہیں۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں کون کون سلطان آباد کے مکینوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کیونکہ مصیبت میں کام آنے والے ہی ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

یہاں پر یہ بات یاد دلانا انتہائی ضروری ہے کہ سلطان آباد کے باسیوں نے ہمیشہ  حکومتی سطع پر ترقیاتی منصوبوں میں بغیرکسی  معاوضے کے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے 700 کنال اراضی دانش اسکول، 200 کنال فیملی پارک، اور 50 کنال گورنمنٹ گرلز کالج کے لیے وقف کی ہے۔ یہ مثالیں اس کمیونٹی کی قربانیوں اور حکومتی اقدامات کے ساتھ تعاون کی عکاس ہیں۔ آج یہ باسی مقامی حکومت، سیاسی نمائندوں اور مخیر حضرات سے امداد کے منتظر ہیں۔

اس وقت ہنگامی بنیادوں پر 1500 فٹ نہر کی فوری بحالی کے لیے 24 انچ کے پائپ، ضروری لوازمات اور ہنرمند مزدوروں کی ضرورت ہے تاکہ ہفتہ دس دنوں میں پانی کی ترسیل بحال ہو اور اراضی کو سوکھنے سے بچایا جا سکے۔ جبکہ طویل مدتی  بنیادوں پر  30 دن کے اندر نئی سڑک اور نہر کی تعمیر کے لیے دھماکہ خیز مواد، اسٹیل، سیمنٹ اور ہنرمنددرکار ہیں۔ فلڈ پروف پائپ لائنز اور واٹر اسٹوریج کی مضبوط سہولیات مستقبل میں آفات سے بچاؤ کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس وقت سلطان آباد کے باسی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد تنہا ناکافی ہے۔ مقامی حکومت، سیاسی نمائندوں اور این جی اوز کی فوری اور مربوط امداد اس مثالی گاؤں کو دوبارہ سرسبز بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس کمیونٹی کی مدد کریں، جو نہ صرف اپنی بقا کے لیے لڑ رہی ہے بلکہ گلگت بلتستان کی زرعی معیشت اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی اہم ہے۔

 

Tuesday, July 29, 2025

شکران نعمت و کفران نعمت

 

شکران نعمت و کفران نعمت

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت

میں گزشتہ سترہ برسوں سے دنیور محمد آباد اور سلطان آباد کی سرزمین پر رہائش پذیر ہوں۔ 2009 سے 2016 تک دنیور محمد آباد میرا ٹھکانہ رہا، اور پھر 2016 سے اب تک سلطان آباد میں مقیم ہوں۔ ان برسوں میں پینے کے پانی کے حوالے سے جو تجربہ میرا  رہا ہے، وہ یوں ہے کہ ہمارے گھروں تک سرکاری پائپ لائنوں کے ذریعے دنیور نالے کا پانی پہنچتا تھا۔ یہ پانی موسموں کے رنگ ڈھنگ کے ساتھ اپنا رنگ و روپ بھی  بدلتا رہتا ہے۔ گرمیوں میں خاص طور پر یہ اتنا گدلا ہوتا  ہے ،کہ اسے پینا محض اکتفا کا نام تھا۔ لیکن ہم سب اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔ 

میں کبھی سلطان آباد اور  دنیور نالے کے اندر  موجود حیشی نامی  اس خوبصورت چگہے پر تو  نہیں جا سکا ہوں، البتہ، سنا ہے کہ یہ ایک دلفریب چراگاہ ہے، جہاں ہر طرف ہریالی کا راج ہے اور  انتہائی پاک و صاف  اور بلکل شفاف چشمے  بہتے ہیں۔ یہ چراگاہ گویا رب  کریم کی رحمتوں کا ایک عظیم مظہر ہے۔علاقے کے بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں جب کوئی مرض لاعلاج ٹھہرتا، تو خلیفہ اور اخون حضرات اسی حیشی کے چشموں کا پاکیزہ پانی لانے کا حکم دیتے۔ اس پانی پر دم دعا کے بعد مریض کو پلایا جاتا، تو گویا مرض دم توڑ دیتا اور شفا مل جاتی۔ 

شکر ہے ربِ کریم کا کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتِ گلگت بلتستان اور آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی ادارے ’واسپ‘ کی کاوشوں سے  اسی حیشی کے ان شفاف چشموں کا پانی پائپ لائنوں کے ذریعے سلطان آباد، دنیور، اور محمد آباد کے ہر گھر تک پہنچایا گیا۔ یہ پانی نہ صرف پاکیزہ ہے بلکہ زندگی کو سہارا دینے والا بھی  ہے۔ مگر اس سال گرمیوں کے موسم نے ان دیہاتوں کے باسیوں کو زندگی کے ایک تلخ موڑ لا کھڑا کیا ہے۔ ایک بے رحم سیلاب نے نہ صرف  کناروں پر موجود آبادیوں  کو تہس نہس کیا، بلکہ واٹر چینلز اور  چشمے کےپانی کی ترسیل کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیا۔ یہ پانی، جو کھیتوں اور گھروں کی جان تھا، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں جا چکا ہے۔  پوری کمیونیٹی واٹر چینلز اور پائپ لائنوں کی بحالی کے لیے دن رات  سرگرداں ہے۔ کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر روزانہ نالے میں نہروں کی صفائی میں جتے  ہوئےہیں، تو کچھ عمائدین و سرکردگان سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں،  اور امداد کی امید میں اپنی بے بسی کی داستانیں سنا رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کمیونیٹی کی مشترکہ جدوجہد اور اداروں کی مدد سے یہ آفت جلد ٹل جائے گا، اور پانی کی ترسیل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ 

مگر اس موقع پر ہمیں ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔ سلطان آباد، دنیور، اور محمد آباد کےتمام باسیوں کو اپنے اپنے  گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔عام عوام و خواص کو اپنے آپ سے کچھ سوالات  پو چھنے ہونگے۔ کیا ہم نے اس نعمت کی قدر کی؟ کیا ہم نے شکرانِ نعمت ادا کیا یا کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوئے؟ ان نالوں  کو روائتی طور پر ہمیشہ سے پاک و صاف اور مقدس تصور کیا جاتا ہے، کیا ہم نے اس کا خیال رکھا؟  یہ پاک و  صاف   اور پرتاثیر شفاف پانی، جو خاص طور پر پینے کے لیے ہم تک پہنچایا گیا تھا، کیا ہم نے اسے بے جا استعمال تو نہیں کیا؟ کیا ہم نے اسے غیر ضروری طورکھیتوں، کیاریوں اور نہروں میں ضائع  تو نہیں کیا؟پانی کا تقسیم برابری کے بنیاد پر کیا  یا کچھ گھروں  اور علاقوں میں یہ پانی چند گھنٹوں سے زیادہ میسر نہ تھا؟ کیا ہم نے پانی کے استعمال کے لیے مقررہ فیس  جو پورا مہینے کے لیے صرف سیکڑوں میں ہے ، ادا کی، یا اسے نظر انداز کر دیا؟  جبکہ آج ہم دو ہزار سے زیادہ رقم  ادا کر کے پانی کا ٹینکر تو منگوا رہے ہیں جو مشکل سے ایک ہفتہ سے کم وقت میں ختم ہو جاتا ہے،  اس طرح کے اور کئی کئی سوالات ہو سکتے ہیں، اور دیگرقارئین کے زہنوں میں  بھی سوالات ہو سکتے ہیں، کسی کو جواب دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہم سب کو اپنے اپنے تعین اس  صورت حال کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔  آئیے ہم سب غور کریں اور  آج سے مستحکم ارادہ کر لیں کہ  اس نعمت کی قدر کریں گے، تاکہ رب  کریم کی رحمت ہم پر دوبارہ سایہ فگن ہو۔ نہیں تو   بقول مرزا غالب  کے کہ:

آپ ہی اپنے اداؤں پہ زرا غور کرو،

ہم اگر کہہ دیں گے تو شکایت ہوگی

Friday, July 25, 2025

سلطان آباد میں راجاکی (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

 

سلطان آباد میں راجاکی  (رضاکارانہ خدمت ) کا جذبہ

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت

گلگت بلتستان ،جہاں پہاڑ خاموش محافظوں کی مانند سر اٹھائے کھڑے ہیں اور دریا اپنے قدیم راستوں کو تراشتے ہوئے  گنگناتے  ہوئے بہتے ہیں، وہاں سلطان آباد نامی ایک خوبصورت قصبہ گلگت کے آغوش میں سمایا ہوا ہے۔ اس سال موسم گرما 2025ء نے اس قصبے کی زندگی میں ایک تلخ  اور سخت موڑ لایا۔ ایک بے رحم سیلاب نے نہ صرف آبادیوں  کو تہس نہس کیا بلکہ واٹر چینلز اور پانی کی ترسیل کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیا۔ یہ پانی، جو کھیتوں اور انسانی بستیوں کی زندگی کا سانس ہے، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں تھا۔ سلطان آباد کے باسیوں کے لیے یہ محض ایک تکلیف نہیں تھی، بلکہ ان کے وجود کے لیے ایک سنگین خطرہ تھا۔

مگر اس مصیبت کے سائے میں، سلطان آباد کی کمیونٹی کا جذبہ چاندنی رات کی طرح چمکا۔ یہ قصبہ مختلف اقوام، خاندانوں اور روایات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، جہاں دہائیوں سے لوگ محبت، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ 25 جولائی 2025ء کو یہ اتحاد ایک قدیم روایت، راجاکی—یعنی رضاکارانہ خدمت—میں ڈھل گیا۔ یہ ایک مشترکہ عزم تھا، ایک وعدہ  تھا کہ جو ٹوٹا ہے، اسے مل کر سنواریں گے۔

جب صبح کی پہلی کرنیں پہاڑوں پر پھیلیں، سلطان آباد کے لوگ اوزاروں سے لیس، دلوں میں عزم کی چنگاری لیے نالے کی طرف نکل پڑے۔جوان و بوڑھے، ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ گروہوں میں واٹر چینل کے مختلف حصوں پر پھیل گئے۔ ہر گروہ نے اپنے حصے کی نہر کو بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ محنت محض کام نہیں تھا—یہ ایک جذبہ تھا، ایک جنون تھا، جو سلطان آباد کے اتحاد کا زندہ ثبوت بن گیا۔ نہ مذہب کی تقسیم تھی، نہ قبیلے کی، نہ خاندان کی تفریق—بس ایک قوم تھی، جو مل کر اپنی زمین کی زندگی کو واپس  لانے کی کوشش میں لگی تھی۔

میں بھی اس اجتماعی کوشش کا حصہ تھا، ایک ایسی جگہ جہاں سیلاب نے زمین کو کاٹ کر گہری کھائی بنا دی تھی۔ ہمارا کام مشکل تھا—ایک بلند پتھر کی دیوار اٹھانی تھی اور خلا کو مٹی سے بھرنا تھا تاکہ پانی دوبارہ اپنا راستہ پا سکے۔ میں نے دوسروں کے ساتھ مل کر پتھر اٹھائے، مٹی بھری، اور اپنا حصہ ڈالا۔ ہر شخص اپنی طاقت اور ہنر کے مطابق کردار ادا کر رہا تھا—کوئی جوانی کی توانائی سے، کوئی تجربے کی حکمت سے۔ ہوا میں ہنسی کی آوازیں، حوصلہ افزا کلمات، اور کبھی کبھار چھوٹے موٹے لطیفوں پر قہقہے گونج رہے تھے، جو ہر دل کو ایک دوسرے کے قریب لا رہے تھے۔ کام تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، جیسے کوئی جادوئی لمحہ ہو۔

مستریوں میں ایک شخص سب کی توجہ کا مرکز تھا۔ اس کی طاقت گویا پہاڑوں سے ٹکر لے رہی تھی۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز سے پتھر پر پتھر رکھ رہے تھے، بغیر کسی توقف کے۔ اس کی لگن ایک خاموش درس تھی، جو سب کو اپنے کام میں جٹے رہنے کی ترغیب دے رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا اور دل سے ماشاءاللہ کہا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بول نہیں سکتا تھا، مگر اس کا ہنر، اس کا جذبہ، اور اس کی خوش مزاجی،  الفاظ سے بلند تر آواز میں بول رہی تھی۔ اس کی مہارت اس کی بے لوث محنت سے ہم آہنگ تھی۔

ایسے سینکڑوں ہیروز تھے، جن کے نام شاید کبھی نہ معلوم ہوں، مگر جن کی محنت ناقابل فراموش ہے۔ ہر پتھر، ہر مٹھی مٹی جو بھری گئی، کامیابی کی طرف ایک قدم تھا۔ سہ پہر تک نہر دوبارہ اپنی شکل میں ڈھل چکی تھی، اس کے خم کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ کام نہ مشینوں سے ہوا، نہ دولت سے، بلکہ اتحاد کی طاقت اور ان ہیروز کے عزم سے ممکن ہوا۔ کام ختم کرنے کے بعد  جب  میں نے پیچھےمڑکر دیکھاتو ہم نے کیا کمال کیاتھا۔ یہ نہر محض پانی کا راستہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک یادگار راجاکی تھی، اس کمیونٹی کی عظمت کی داستان جو کبھی نہیں ٹوٹی۔ ماشاءاللہ اور زندہ باد، سلطان آباد! تم نے نہ صرف اپنی نہر بحال کی، بلکہ محبت، ہمت، اور انسانی جذبے کی ایک نئی کہانی رقم کی۔

 

 

Wednesday, June 26, 2024

A TALE OF BEAUTY, HOSPITALITY, AND CHALLENGES

 A TALE OF BEAUTY, HOSPITALITY, AND CHALLENGES

Darvesh Karim

The Hunza Valley, a breathtakingly beautiful valley nestled in the mountains of Gilgit-Baltistan, has long captivated the hearts of tourists from around the world. With its stunning landscapes, rich cultural heritage, and warm-hearted people, Hunza Valley has become a brand now and stands out as a prime destination for those seeking both adventure and tranquillity. Social and mainstream media platforms are filled with encouraging stories and praises from visitors who highlight not just the natural beauty of Hunza Valley but also the welcoming nature of its people. The locals are often described as humble, loyal, faithful, cheerful, and possessing a profound sense of human dignity.


The positive portrayal of Hunza Valley and its residents has undoubtedly been beneficial. It has drawn attention to the region, boosting tourism and providing economic opportunities for the local community. The recognition of the people’s hospitality and character has fostered a sense of pride among the inhabitants of Hunza Valley, encouraging them further to maintain and even enhance their reputation as gracious hosts.

However, this admiration and fame also bring about certain challenges. One concern is the potential for jealousy and animosity from those who may view Hunza’s growing popularity with disdain. This resentment could stem from various sources, including rival touristic regions or individuals with personal biases against the people of Hunza Valley. Such negative sentiments can manifest in attempts to tarnish Hunza’s reputation or undermine the positive impact it has on tourism.

In an age where social media plays a pivotal role in shaping perceptions, the narrative surrounding a place can have significant repercussions. The admiring comments about Hunza Valley’s residents on social media are a double-edged sword. While they attract more tourists and bolster the local economy, they also risk creating a contrast between the image of Hunza Valley and other regions. This perceived favouritism can breed discontent and foster negative attitudes among those who feel overshadowed by Hunza Valley’s rising fame. 

Moreover, the constant portrayal of Hunza Valley as a paradise with perfect inhabitants can set unrealistic expectations for tourists. While the people of Hunza are indeed known for their hospitality, they are also human, with the same complexities and imperfections as anyone else. The pressure to live up to an idealized image can be burdensome for the locals, potentially leading to stress and a sense of inadequacy.

To mitigate these issues, it is essential to approach the promotion of Hunza Valley with a balanced perspective. Acknowledging the region’s challenges alongside its strengths can present a more realistic picture. Highlighting the efforts of the local community in preserving their culture and environment, despite the difficulties they face, can foster a deeper appreciation and respect from visitors.

Additionally, promoting cultural exchange and understanding between Hunza Valley and other regions can help alleviate feelings of rivalry and resentment. Encouraging tourists to explore various parts of Gilgit-Baltistan and appreciate the unique qualities each area has to offer can create a more inclusive and supportive tourism environment.


In conclusion, Hunza Valley’s growing popularity and the admiration for its people on social media have both positive and negative implications. While it has brought economic benefits and recognition, it also poses challenges that need to be addressed thoughtfully. By promoting a balanced and inclusive narrative, it is possible to celebrate Hunza Valley’s beauty and hospitality while fostering harmony and mutual respect among all regions

 

June 26, 2027

نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں

  نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں میں،   درویش کریم اپنے قریبی فیملی کے تمام افراد کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ محض...