Saturday, August 2, 2025

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

 

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت۔

سلطان آباد، گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت قصبہ، جو کبھی اپنی مثالی ہم آہنگی اور سرسبز زراعت کے لیے جانا جاتا تھا، آج ایک تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے۔ یہ قصبہ، جہاں مختلف اقوام، خاندانوں اور روایات کا خوبصورت امتزاج آباد ہے، دہائیوں سے محبت، امن اور یکجہتی کی علامت رہا ہے۔ تقریباً 1500 گھرانوں پر مشتمل یہ آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت، پھل دار درختوں اور جنگلات پر انحصار کرتی ہے۔ 11 ہزار کنال اراضی کو سیراب کرنے کے لیے سلطان آباد نالے سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، جن سے 7000 کنال پر زرعی اجناس اور پھل دار درخت جبکہ 4000 کنال پر عمارتی لکڑی اور جنگلی درخت اگائے گئے ہیں۔ ایک  محتاط اندازے کے مطابق یہاں 60 ہزار سے زائد پھل دار درخت اور 3 لاکھ سے زیادہ جنگلی اور عمارتی درخت موجود ہیں، جو اس خطے کی زرخیزی اور معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔

تقریباً دو ہفتے قبل، سلطان آباد نالے میں ایک غیر معمولی شدت کا سیلاب آیا، جس کا کوئی ریکارڈ ماضی میں موجود نہیں۔ اس بے رحم سیلاب نے نہ صرف نالے کے کناروں پر واقع آبادیوں کو تہس نہس کیا بلکہ پانی کی دونوں نہریں اور پینے کے پانی کا ترسیلی نظام بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یہ پانی، جو 11 ہزار کنال اراضی کی آبپاشی اور انسانی بستیوں کی بقا کا واحد سہارا تھا، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں ہے۔ یہ محض ایک قدرتی آفت ہی  نہیں، بلکہ سلطان آباد کے باسیوں کے وجود کے لیےبھی  ایک سنگین خطرہ ہے۔

سلطان آباد کے باسی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ دن رات نہروں کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن نقصان کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مقامی وسائل اس کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔ 11 ہزار کنال اراضی، جسے آباد کرنے میں ایک صدی کی محنت لگی، دوبارہ بنجر ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ کمیونٹی متحد ہو کر ملبہ صاف کرنے اور نہروں کی بحالی کے لیے جدو جہد کر رہی ہے، لیکن بھاری مشینری، دھماکہ خیز مواد، اسٹیل، سیمنٹ اور ہنرمند مزدوروں کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔

قدرتی آفات جیسے سیلاب جب پانی کے ترسیلی نظام کو متاثر کرتے ہیں، تو مقامی حکومتوں، سیاسی نمائندوں، حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں،  مثلاً  مقامی حکومتیں، فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی کے لیے واٹر ٹینکرز اور بوتل بند پانی کی تقسیم کا انتظام ،  متاثرہ واٹر سپلائی سسٹم کی مرمت یا عارضی متبادل نظام قائم  کرنا،  اور اس طرح  سیاسی نمائندے، متاثرین کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانا اور فوری امداد کے لیے دباؤ ڈالنا،  حکومتی فنڈز اور امدادی پیکجز کو شفاف طریقے سے متاثرین تک پہنچانے میں کردار ادا کرنا شامل ہیں۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں کون کون سلطان آباد کے مکینوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کیونکہ مصیبت میں کام آنے والے ہی ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

یہاں پر یہ بات یاد دلانا انتہائی ضروری ہے کہ سلطان آباد کے باسیوں نے ہمیشہ  حکومتی سطع پر ترقیاتی منصوبوں میں بغیرکسی  معاوضے کے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے 700 کنال اراضی دانش اسکول، 200 کنال فیملی پارک، اور 50 کنال گورنمنٹ گرلز کالج کے لیے وقف کی ہے۔ یہ مثالیں اس کمیونٹی کی قربانیوں اور حکومتی اقدامات کے ساتھ تعاون کی عکاس ہیں۔ آج یہ باسی مقامی حکومت، سیاسی نمائندوں اور مخیر حضرات سے امداد کے منتظر ہیں۔

اس وقت ہنگامی بنیادوں پر 1500 فٹ نہر کی فوری بحالی کے لیے 24 انچ کے پائپ، ضروری لوازمات اور ہنرمند مزدوروں کی ضرورت ہے تاکہ ہفتہ دس دنوں میں پانی کی ترسیل بحال ہو اور اراضی کو سوکھنے سے بچایا جا سکے۔ جبکہ طویل مدتی  بنیادوں پر  30 دن کے اندر نئی سڑک اور نہر کی تعمیر کے لیے دھماکہ خیز مواد، اسٹیل، سیمنٹ اور ہنرمنددرکار ہیں۔ فلڈ پروف پائپ لائنز اور واٹر اسٹوریج کی مضبوط سہولیات مستقبل میں آفات سے بچاؤ کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس وقت سلطان آباد کے باسی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد تنہا ناکافی ہے۔ مقامی حکومت، سیاسی نمائندوں اور این جی اوز کی فوری اور مربوط امداد اس مثالی گاؤں کو دوبارہ سرسبز بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس کمیونٹی کی مدد کریں، جو نہ صرف اپنی بقا کے لیے لڑ رہی ہے بلکہ گلگت بلتستان کی زرعی معیشت اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی اہم ہے۔

 

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

  سلطان آباد کی بقا کی جنگ تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت۔ سلطان آباد، گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت قصبہ، جو کبھی ...