Tuesday, August 19, 2025

نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں

 

نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں

میں،  درویش کریم اپنے قریبی فیملی کے تمام افراد کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ محض میرا نقطہ نظر ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مکمل طور پر درست نہ بھی  ہو، لیکن میں نے سوچا کہ اسے آپ سب کے ساتھ شئیر کروں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہر گھر میں وقتاً فوقتاً مختلف واقعات پیش آتے  رہتے ہیں۔ کبھی خوشی کے لمحات ہیں تو کبھی ناچاقی کے۔ یہ کوئی غیر معمولی  یا انہونی بات نہیں ہے، بلکہ یہ سب زندگی کا حصہ ہیں۔ خوشی اور غم، دونوں ہی ہر دور میں آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔

خوشی کے لمحات سے تو ہر کوئی لطف اندوز ہوتا  ہی ہے، لیکن جب  (اللہ نہ کرے)  کبھی ناچاقی ہوجاتی  ہے تو ہم اکثر اسے اپنے  دل پر لے لیتے ہیں اور اسے زندگی بھر کا روگ بنا لیتے ہیں۔ ہم اس ناچاقی میں ملوث رشتہ داروں کو ہمیشہ بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان کی باتوں کو دل میں بسائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم ان واقعات کا تذکرہ اپنے بچوں سے بھی کرتے ہیں، جو بعض اوقات اس ناچاقی کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے دل میں پالی ہوئی کدورت کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کر دیتے ہیں اور ان کے ذہنوں کو بھی  ان رشتہ داروں کے حوالے سے منفی جذبات سے آلودہ کر لیتے ہیں۔

نتیجتاً، ہم رشتوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے نسل در نسل نفرت اور دوری کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ساس، سسر، میاں ، بیوی،بہو، بھابھی، دیور، دیورانی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، پھوپھی، پھوپھا ، بھانجے ، بھانجیاں، بتیجا، بتیجیاں اور اسطرح  کے دیگر رشتوں کو ہم اس قدر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے ہم ایک دوسرے کے رشتہ دار نہیں، بلکہ دشمن ہیں اور اجنبی ہیں۔ حالانکہ رشتے زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ یہ رشتے ہمیں جوڑتے ہیں، ہماری خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں اور ہماری زندگی کو بامعنی بنا  دیتے ہیں۔

آخر میں، میری آپ سب سے گزارش ہے کہ رشتوں کی قدر  کرنا شروع کریں اور انہیں سنبھال کر رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی ناچاقی ہو بھی جائے تو اسے اپنی حد تک محدود رکھیں، اور کوشش کریں کہ وہ ناچاقی دل سے نکال سکیں۔ میری گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی اولاد کے ذہنوں کو رشتوں کے بارے میں منفی خیالات سے آلودہ نہ کریں۔ اپنے بچوں کو رشتوں کی اہمیت سکھائیں، محبت اور معافی کا سبق دیں، تاکہ وہ ایک مثبت اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔ آئیے مل کر نفرت کے بجائے محبت اور رشتوں کی گرمجوشی کو فروغ دیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔

اگست ۱۹، ۲۰۲۵

Monday, August 18, 2025

حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور متبادل سڑکوں اور پلوں کی اہمیت

 

حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور متبادل سڑکوں اور پلوں کی اہمیت

تحریر: درویش کریم

پورا گلگت بلتستان 2025 کے مون سون سیزن اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے شدید سیلابی صورت حال سے متاثر ہے، جس نے جگہ جگہ پر تباہی مچائی ہے۔ جولائی کے وسط سے شروع ہونے والی یہ سیلابی صورت حال گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔ ان سیلابوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، زرعی زمینیں، مکانات، اور انفراسٹرکچر جن میں نہریں، سڑکیں اور پل شامل ہیں، تباہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہو چکی ہے، اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ 

اس طرح کے حالات میں دیکھا گیا ہے کہ رابطہ سڑکیں اور پل علاقے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر گلگت بلتستان جہاں جغرافیائی مشکلات اور دور دراز علاقے موجود ہیں۔ یہ نہ صرف لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بناتے ہیں بلکہ معیشت، تجارت، سیاحت، اور ضروری اشیاء کی سپلائی کے لیے ناگزیر ہیں۔ گلگت بلتستان میں، جہاں سیاحت بنیادی ذریعہ معاش ہے، سڑکیں اور پل سیاحوں کو پہنچانے اور مقامی مصنوعات کو مارکیٹ تک لانے اور لے جانے کا واحد ذریعہ ہیں۔ پل دریاوں اور نالوں کو عبور کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو سیلاب یا قدرتی آفات کے وقت لائف لائن کا کام کرتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی سے نہ صرف اقتصادی سرگرمیاں رک جاتی ہیں بلکہ ہنگامی طبی امداد، خوراک کی ترسیل، اور تعلیم تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔ جدید انفراسٹرکچر کی موجودگی سے علاقائی ترقی ممکن ہوتی ہے، جبکہ یہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر، پکی سڑکیں اور مضبوط پل قومی اتحاد اور ترقی کی علامت    سمجھی جاتی ہیں، جو دور دراز علاقوں کو مرکزی شہروں سے جوڑنے کے سبب بنتی ہیں۔ 

جب سڑکیں اور پل سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں تو لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑی تکلیف آمد و رفت کی بندش ہے، جس سے لوگ اپنے گھروں میں پھنس جاتے ہیں اور ضروری اشیاء جیسے ادویات، خوراک، اور ایندھن تک رسائی نہیں ملتی۔ کچھ علاقوں میں، جہاں صرف ایک سڑک موجود ہو اور اگر یہ سڑک بہہ جائے تو ہزاروں سیاح اور مقامی لوگ پھنس جاتے ہیں، جس سے معاشی نقصان ہوتا ہے۔ طبی ہنگامی صورتحال میں مریضوں کو ہسپتال پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے، جو ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا سبب بن جاتے ہیں، بچے سکول نہیں جا سکتے، کسان اپنی پیداوار مارکیٹ تک نہیں پہنچا سکتے، اور کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں، لوگوں کو اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑتا ہے، جو نقل مکانی کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ یہ تکلیفیں خاص طور پر غریب اور دیہی علاقوں کے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں، جو پہلے ہی وسائل کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر حسن آباد ہنزہ میں ششپر گلیشیئر کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب نےقراقرم ہائی وے کا ایک بڑا حصہ بہا لے گیا، جس سے گلگت اور ہنزہ کے درمیان مرکزی شاہراہ منقطع ہو گئی۔ تاہم، سمائر، اسقرداس، اور شاہ یار نگر کی سڑک، جو اس وقت متبادل راستے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے، کی بدولت لوگوں کی آمد و رفت میں کافی آسانی پیدا ہوئی ہے۔ یہ متبادل راستہ، جو نگر کی طرف سے گزرتا ہے، ٹریفک کو ڈائیورٹ کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔،  جس سے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو سفر جاری رکھنے کا  سہولت میسر ہوا ہے۔ اسی کی بدولت، ہزاروں افراد پھنسنے سے بچ گئے اور علاقے کی معیشت مکمل طور پر نہیں رکی۔ یہ مثال ظاہر کرتی ہے کہ متبادل راستے کس طرح بحران میں لائف لائن کا کام کرتے ہیں۔ 

اس طرح کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے دریاوں کے دونوں اطراف مزید متبادل سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ یہ آسان آمد و رفت کے علاوہ بحران کے وقت متبادل راستوں کے طور پر لوگوں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے پختہ سڑکیں اور پل بنائے، جو طویل مدتی سرمایہ کاری ثابت ہوں گے۔ مثلاً گلگت نومل سے ناصر آباد ہنزہ تک متبادل سڑک اور نگر مناپن سے ہوپر نگر تک متبادل سڑک اور بہت سے جگہوں  پرپلوں کی تعمیر انتہائی ناگزیر ہے۔ 

عوامی نمائندوں اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی حالات سے نمٹنے کے لیے متبادل راستوں کی تعمیر کو ترجیح دیں۔ عوامی نمائندوں کو مقتدر ایوانوں میں یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے، فنڈز کی تخصیص کی مانگ کرنی چاہیے، اور مقامی کمیونٹیز کی آواز بننا چاہیے۔ وہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلانز میں متبادل انفراسٹرکچر کو شامل کروا سکتے ہیں۔ تاہم، اکثر دیکھا گیا ہے کہ کرپشن اور عدم توجہی کی وجہ سے پروجیکٹس تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، جو عوامی نمائندوں کی ناکامی ہے۔ ایک موثر حکمت عملی یہ ہے کہ کمیونٹی بیسڈ پلاننگ کی جائے، جہاں مقامی لوگوں کی رائے شامل ہو۔ اگر ادارے فعال ہوں تو، مستقبل میں سیلاب جیسی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے، اور علاقائی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

Thursday, August 7, 2025

ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر

 

ایک رنگا رنگ گلشن کی بحالی کا سفر

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد گلگت۔

سلطان آباد، گلگت ایک ایسا حسین گاوں، جو حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کی وجہ سے ایک مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی ہے، لیکن اس کے  باوجود بھی  اپنی دلکشی  اور حوصلے کے ساتھ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ یہ سرزمین، جو اپنی زرخیزی اور رنگا رنگی کے لیے مشہور ہے، اب کمیونیٹی کے رضاکاروں اور مقامی حکومت کے تعاون سے نہروں کی بحالی کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے۔ امید کی یہ کرنیں، جو دل و جان کو گرما رہی ہیں، گواہی دیتی ہیں کہ جلد ہی سلطان آباد کی پیاسی زمین کو پانی کی نعمت دوبارہ نصیب ہوگی۔ انشاءاللہ۔ یہ زمین، جو اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اس کی خدمت اور حفاظت ہی ہم انسانوں کا فرض ہے۔ یہ حالیہ آفت، جو ایک امتحان بن کر آئی، نہ صرف مشکلات سے دوچار کیا بلکہ کئی بیش قیمت سبق بھی  سکھا گیا۔

پہلا سبق یہ کہ قدرتی آفات جب اپنا زور دکھاتی ہیں، تو وہ نہ قوم دیکھتی ہیں، نہ مسلک، نہ زبان اور نہ ہی کوئی اور  امتیاز۔ یہ آفت سب کو یکساں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اور اس  طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد و اتفاق ہی سب سے بڑا ہتھیار   ثابت ہوتا ہے۔ سلطان آباد، جسے میں  اکثر اپنی تحریروں میں ایک رنگا رنگ گلشن سے تشبیہ دیتا رہا ہوں، واقعی ایک ایسی جنت نظیر ہے جہاں مختلف رنگ، نسل، عقائد، روایات اور زبانوں کے پھول اپنی بھرپور آب و تاب کے  ساتھ کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی باغ صرف ایک ہی قسم کے پھولوں سے سجا ہو، تو وہ خوبصورت تو ہوتا ہے، مگر جب اسی باغ میں رنگ برنگ کے پھول، مختلف خوشبوؤں اور اقسام کے ساتھ سج جائیں، تو اس کی دلکشی  میں چار چاند لگے جاتے ہیں۔ سلطان آباد بھی ایسا ہی ایک منفرد گلشن ہے، جہاں شینا، پشتو، گوجری، کھوار، واخی اور بروشاسکی کی تینوں اقسام (ہنزہ، نگر اور یاسینی) بولنے والوں کا مجموعہ ہے، جو اسے ایک عظیم ثقافتی مرکز بنادیتا ہے۔ یہ رنگا رنگی اس سرسبز قطع اراضی  کی پہچان ہے، جو اسے دوسرے علاقوں سے ممتاز  بنا دیتی ہے۔

دوسرا سبق جو اس سیلابی آفت نے ہمیں دیا، وہ ہے اتحاد و اتفاق کی لازوال طاقت۔ جب سیلابی ریلوں نے سلطان آباد کی دونوں نہروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہ کیا، تو اس علاقے کے باسیوں نے یک جان ہو کر اس کا مقابلہ کیا۔ مرد ، بزرگ و جوان اور بچوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس بحالی کے اہم  اور سخت کام میں حصہ لیا۔ یہ منظر نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ ایک ایسی مثال ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے گی۔ آفرین ہے اس قوم پر، جو مشکل کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کا سہارا بنی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اسی طرح ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور سلطان آباد کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہمت بخشے۔ آمین۔

نہروں کی بحالی کا کام اب امید افزا انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ دونوں نہریں جزوی طور پر بحال ہو چکی ہیں، اور انشاءاللہ جلد مکمل بحالی کی خوشخبری بھی ملے گی۔ اس قدرتی امتحان میں سلطان آباد کے باسیوں نے جس یکجہتی اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے سرخروئی اور کامیابی کی صورت میں عطا کیاہے۔ اس نعمت پر سجدہ شکر بجا لانا ہم سب پر لازم ہے۔  اس عظیم کامیابی کے جشن کے طور پر، سلطان آباد کے تمام باسیوں کو چاہیے کہ وہ ایک عظیم الشان شکرانے کی محفل سجائیں۔ اس محفل میں مرد و زن، بزرگ و جوان، بچے، سب شریک ہوں۔ نیاز کا اہتمام کیا جائے، مختلف پروگرامز ترتیب دیے جائیں، ہر قسم کے ثقافتی پروگرامز جن میں پشتو ثقافب، گوجری ثقافت، شینا ثقافت، کھوار ثقافت، واخی ثقافت، اور بروشاسکی ثقافتیں  اجاگر کی جائیں،  اور پورا دن خوشیاں بانٹتے ہوئے گزرے۔ یہ محفل نہ صرف ہمارے اتحاد کی عکاسی کرے گی ،بلکہ اس عہد کی تجدید کا موقع بھی فراہم کرے گی کہ ہم ایک تھے، ایک ہیں، اور انشاءاللہ ہمیشہ ایک رہیں گے۔ اس موقع پر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی جائیں، ایک دوسرے کی  خوشیوں میں شریک ہوا جائے، اور اس سرزمین کی ترقی و خوشحالی کے لیے  سب مل کر دعائیں مانگی جائیں۔ اور اگر ہو سکے تو اسی طرح کے  شکرانے کی محفل و ثقافتی میلہ ہر سال سجانے کا اہتمام  کیا جائے۔

اے اللہ،  تو اس سرزمین کو اپنی رحمتوں سے نواز دے، اس کے باسیوں کو ہمیشہ متحد رکھ، اور انہیں ہر مشکل سے نکالنے کی  اعلی توفیق عطا فرما۔ سلطان آباد کا یہ رنگا رنگ گلشن ہمیشہ اپنی دلکشی  اور سرخروئی کے ساتھ چمکتا رہے، اور اس کے باسی اپنے اتحاد و محبت کی بدولت ہر امتحان میں سرخرو ہوں۔ آمین، یا رب العالمین۔

 

Saturday, August 2, 2025

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

 

سلطان آباد کی بقا کی جنگ

تحریر: درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت۔

سلطان آباد، گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت قصبہ، جو کبھی اپنی مثالی ہم آہنگی اور سرسبز زراعت کے لیے جانا جاتا تھا، آج ایک تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے۔ یہ قصبہ، جہاں مختلف اقوام، خاندانوں اور روایات کا خوبصورت امتزاج آباد ہے، دہائیوں سے محبت، امن اور یکجہتی کی علامت رہا ہے۔ تقریباً 1500 گھرانوں پر مشتمل یہ آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت، پھل دار درختوں اور جنگلات پر انحصار کرتی ہے۔ 11 ہزار کنال اراضی کو سیراب کرنے کے لیے سلطان آباد نالے سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، جن سے 7000 کنال پر زرعی اجناس اور پھل دار درخت جبکہ 4000 کنال پر عمارتی لکڑی اور جنگلی درخت اگائے گئے ہیں۔ ایک  محتاط اندازے کے مطابق یہاں 60 ہزار سے زائد پھل دار درخت اور 3 لاکھ سے زیادہ جنگلی اور عمارتی درخت موجود ہیں، جو اس خطے کی زرخیزی اور معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔

تقریباً دو ہفتے قبل، سلطان آباد نالے میں ایک غیر معمولی شدت کا سیلاب آیا، جس کا کوئی ریکارڈ ماضی میں موجود نہیں۔ اس بے رحم سیلاب نے نہ صرف نالے کے کناروں پر واقع آبادیوں کو تہس نہس کیا بلکہ پانی کی دونوں نہریں اور پینے کے پانی کا ترسیلی نظام بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یہ پانی، جو 11 ہزار کنال اراضی کی آبپاشی اور انسانی بستیوں کی بقا کا واحد سہارا تھا، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں ہے۔ یہ محض ایک قدرتی آفت ہی  نہیں، بلکہ سلطان آباد کے باسیوں کے وجود کے لیےبھی  ایک سنگین خطرہ ہے۔

سلطان آباد کے باسی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ دن رات نہروں کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن نقصان کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ مقامی وسائل اس کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔ 11 ہزار کنال اراضی، جسے آباد کرنے میں ایک صدی کی محنت لگی، دوبارہ بنجر ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ کمیونٹی متحد ہو کر ملبہ صاف کرنے اور نہروں کی بحالی کے لیے جدو جہد کر رہی ہے، لیکن بھاری مشینری، دھماکہ خیز مواد، اسٹیل، سیمنٹ اور ہنرمند مزدوروں کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔

قدرتی آفات جیسے سیلاب جب پانی کے ترسیلی نظام کو متاثر کرتے ہیں، تو مقامی حکومتوں، سیاسی نمائندوں، حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں،  مثلاً  مقامی حکومتیں، فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی کے لیے واٹر ٹینکرز اور بوتل بند پانی کی تقسیم کا انتظام ،  متاثرہ واٹر سپلائی سسٹم کی مرمت یا عارضی متبادل نظام قائم  کرنا،  اور اس طرح  سیاسی نمائندے، متاثرین کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچانا اور فوری امداد کے لیے دباؤ ڈالنا،  حکومتی فنڈز اور امدادی پیکجز کو شفاف طریقے سے متاثرین تک پہنچانے میں کردار ادا کرنا شامل ہیں۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں کون کون سلطان آباد کے مکینوں کے ساتھ کھڑے ہیں، کیونکہ مصیبت میں کام آنے والے ہی ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

یہاں پر یہ بات یاد دلانا انتہائی ضروری ہے کہ سلطان آباد کے باسیوں نے ہمیشہ  حکومتی سطع پر ترقیاتی منصوبوں میں بغیرکسی  معاوضے کے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے 700 کنال اراضی دانش اسکول، 200 کنال فیملی پارک، اور 50 کنال گورنمنٹ گرلز کالج کے لیے وقف کی ہے۔ یہ مثالیں اس کمیونٹی کی قربانیوں اور حکومتی اقدامات کے ساتھ تعاون کی عکاس ہیں۔ آج یہ باسی مقامی حکومت، سیاسی نمائندوں اور مخیر حضرات سے امداد کے منتظر ہیں۔

اس وقت ہنگامی بنیادوں پر 1500 فٹ نہر کی فوری بحالی کے لیے 24 انچ کے پائپ، ضروری لوازمات اور ہنرمند مزدوروں کی ضرورت ہے تاکہ ہفتہ دس دنوں میں پانی کی ترسیل بحال ہو اور اراضی کو سوکھنے سے بچایا جا سکے۔ جبکہ طویل مدتی  بنیادوں پر  30 دن کے اندر نئی سڑک اور نہر کی تعمیر کے لیے دھماکہ خیز مواد، اسٹیل، سیمنٹ اور ہنرمنددرکار ہیں۔ فلڈ پروف پائپ لائنز اور واٹر اسٹوریج کی مضبوط سہولیات مستقبل میں آفات سے بچاؤ کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس وقت سلطان آباد کے باسی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد تنہا ناکافی ہے۔ مقامی حکومت، سیاسی نمائندوں اور این جی اوز کی فوری اور مربوط امداد اس مثالی گاؤں کو دوبارہ سرسبز بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس کمیونٹی کی مدد کریں، جو نہ صرف اپنی بقا کے لیے لڑ رہی ہے بلکہ گلگت بلتستان کی زرعی معیشت اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی اہم ہے۔

 

نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں

  نفرت کی بجائے محبت کو پروان چڑھائیں میں،   درویش کریم اپنے قریبی فیملی کے تمام افراد کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ محض...