شکران نعمت و کفران نعمت
تحریر:
درویش کریم، الکریم کمیونیٹی، سلطان آباد، گلگت
میں گزشتہ سترہ برسوں سے دنیور محمد آباد اور سلطان آباد کی
سرزمین پر رہائش پذیر ہوں۔ 2009 سے 2016 تک دنیور محمد آباد میرا ٹھکانہ رہا، اور پھر
2016 سے اب تک سلطان آباد میں مقیم ہوں۔ ان برسوں میں پینے کے پانی کے حوالے سے جو
تجربہ میرا رہا ہے، وہ یوں ہے کہ ہمارے گھروں
تک سرکاری پائپ لائنوں کے ذریعے دنیور نالے کا پانی پہنچتا تھا۔ یہ پانی موسموں کے
رنگ ڈھنگ کے ساتھ اپنا رنگ و روپ بھی بدلتا
رہتا ہے۔ گرمیوں میں خاص طور پر یہ اتنا گدلا ہوتا ہے ،کہ اسے پینا محض اکتفا کا نام تھا۔ لیکن ہم
سب اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔
میں کبھی سلطان آباد اور دنیور نالے کے اندر موجود حیشی نامی اس خوبصورت چگہے پر تو نہیں جا سکا ہوں، البتہ، سنا ہے کہ یہ ایک دلفریب
چراگاہ ہے، جہاں ہر طرف ہریالی کا راج ہے اور انتہائی پاک و صاف اور بلکل شفاف چشمے بہتے ہیں۔ یہ چراگاہ گویا رب کریم کی رحمتوں کا ایک عظیم مظہر ہے۔علاقے کے
بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں جب کوئی مرض لاعلاج ٹھہرتا، تو خلیفہ اور اخون
حضرات اسی حیشی کے چشموں کا پاکیزہ پانی لانے کا حکم دیتے۔ اس پانی پر دم دعا کے بعد
مریض کو پلایا جاتا، تو گویا مرض دم توڑ دیتا اور شفا مل جاتی۔
شکر ہے ربِ کریم کا کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتِ گلگت بلتستان
اور آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے ذیلی ادارے ’واسپ‘ کی کاوشوں سے اسی حیشی کے ان شفاف چشموں کا پانی پائپ لائنوں کے
ذریعے سلطان آباد، دنیور، اور محمد آباد کے ہر گھر تک پہنچایا گیا۔ یہ پانی نہ صرف
پاکیزہ ہے بلکہ زندگی کو سہارا دینے والا بھی ہے۔ مگر اس سال گرمیوں کے موسم نے ان دیہاتوں کے
باسیوں کو زندگی کے ایک تلخ موڑ لا کھڑا کیا ہے۔ ایک بے رحم سیلاب نے نہ صرف کناروں پر موجود آبادیوں کو تہس نہس کیا، بلکہ واٹر چینلز اور چشمے کےپانی کی ترسیل کے نظام کو بھی درہم برہم کر
دیا۔ یہ پانی، جو کھیتوں اور گھروں کی جان تھا، اب ملبے اور پتھروں کی قید میں جا چکا
ہے۔ پوری کمیونیٹی واٹر چینلز اور پائپ لائنوں
کی بحالی کے لیے دن رات سرگرداں ہے۔ کچھ لوگ
رضاکارانہ طور پر روزانہ نالے میں نہروں کی صفائی میں جتے ہوئےہیں، تو کچھ عمائدین و سرکردگان سرکاری و غیر
سرکاری اداروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں، اور امداد کی امید میں اپنی بے بسی کی داستانیں سنا
رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کمیونیٹی کی مشترکہ جدوجہد اور اداروں کی مدد سے یہ آفت جلد
ٹل جائے گا، اور پانی کی ترسیل دوبارہ شروع ہو جائے گا۔
مگر اس موقع پر ہمیں ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔ سلطان آباد، دنیور،
اور محمد آباد کےتمام باسیوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔عام عوام و خواص کو اپنے
آپ سے کچھ سوالات پو چھنے ہونگے۔ کیا ہم نے
اس نعمت کی قدر کی؟ کیا ہم نے شکرانِ نعمت ادا کیا یا کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوئے؟
ان نالوں کو روائتی طور پر ہمیشہ سے پاک و
صاف اور مقدس تصور کیا جاتا ہے، کیا ہم نے اس کا خیال رکھا؟ یہ پاک و صاف اور پرتاثیر شفاف پانی، جو خاص طور پر پینے کے لیے
ہم تک پہنچایا گیا تھا، کیا ہم نے اسے بے جا استعمال تو نہیں کیا؟ کیا ہم نے اسے غیر
ضروری طورکھیتوں، کیاریوں اور نہروں میں ضائع تو نہیں کیا؟پانی کا تقسیم برابری کے بنیاد پر
کیا یا کچھ گھروں اور علاقوں میں یہ پانی چند گھنٹوں سے زیادہ میسر
نہ تھا؟ کیا ہم نے پانی کے استعمال کے لیے مقررہ فیس جو پورا مہینے کے لیے صرف سیکڑوں میں ہے ، ادا کی،
یا اسے نظر انداز کر دیا؟ جبکہ آج ہم دو
ہزار سے زیادہ رقم ادا کر کے پانی کا
ٹینکر تو منگوا رہے ہیں جو مشکل سے ایک ہفتہ سے کم وقت میں ختم ہو جاتا ہے، اس طرح کے اور کئی کئی سوالات ہو سکتے ہیں، اور
دیگرقارئین کے زہنوں میں بھی سوالات ہو
سکتے ہیں، کسی کو جواب دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہم سب کو اپنے اپنے تعین
اس صورت حال کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم سب غور کریں اور آج سے مستحکم ارادہ کر لیں کہ اس نعمت کی قدر کریں گے، تاکہ رب کریم کی رحمت ہم پر دوبارہ سایہ فگن ہو۔ نہیں تو
بقول مرزا غالب کے کہ:
آپ ہی اپنے اداؤں پہ زرا غور کرو،
ہم اگر کہہ دیں گے تو شکایت ہوگی